💕امامت غسال💕
#میت
#غسال
🔸 سوال:
آیا کسی که شغلش شستن مرده میباشد امامت این شخص چه حکمی دارد
➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📝 پاسخ
🔹 از نظر شرعی امامت فرد مرده شور درست می باشد
🔸غسل میت عملی نیست که موجب اشکال در امامت گردد
بلکه برعکس، بهتر است که شخص متوفی توسط افراد نیک و متقی غسل داده شود.
🔸بنابراین اقتداء در نماز به شخص غسال از نظر شرعی مشکلی ندارد.
🔸البته فقهاء نوشتن این شغل اگر در جایی بعنوان شغل حقیر تلقی شود،
یا شغل کسی مرده شوری باشد و اخلاق خرابی هم داشته باشد در اینصورت، امامت اینطور فردی مکروه میباشد.
📚 دلایل و منابع
▫️"عنوان:میت کو غسل دینے والے کو امام مقرر کرنا کیسا ہے؟
جواب:(از حضرت مفتی اعظمؒ)اگر غسال اجرت لیتا ہواور بد اخلاقی کے اعمال اس سے صادر ہوتے ہوں تو اس کی امامت مکروہ ہوگی ،کیوں کہ ایسے شخص کو لوگ نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔"
کفایت المفتی
(کتاب الصلوۃ،89/3،ط:دارالاشاعت)
▫️میت کو غسل دینا ایسا عمل نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے امامت میں کراہت آئے؛ بلکہ میت کو غسل اہلِ تقویٰ حضرات کا دینا بہتر ہے؛اس لیے اس شخص کی اقتداء میں نماز بلاکراہت درست ہے۔ قال فی الشامی: یندب الغسل من غسل المیت، ویکرہ أن یغسلہ جنب أو حائض․․ والأولیٰ کونہ أقرب الناس الیہ، فان لم یحسن الغسل فأہل الأمانة والورع․ (شامی: ۳/۹۵باب صلاة الجنازةط: زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میت کو غسل دینا مسلمانوں کےذمہ نمازِ جنازہ کی طرح فرضِ کفایہ ہے ،لہذا جیسے نماز جنازہ پڑھنے والےکی امامت میں کوئی خرابی نہیں اسی طرح غسل دینے والے کی امامت میں بھی کوئی حرج نہیں ہے،البتہ میت کو غسل دینے والا شخص بداخلاقی کرتا ہو،یا اس کا م پر اجرت لیتا ہو،اور اس جگہ کے عرف میں میت کو غسل دینے والے کو حقیر سمجھا جاتا ہوتو وہا ں ایسے شخص کی امامت مکروہ ہوگی،اور جہاں ایسا عرف نہیں وہاں مکروہ نہیں ہوگا۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401100419
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
➖➖➖➖➖➖➖➖➖
🌸 گروه پاسخگویی سوالات شرعی اهلسنت
💞┈••✾•🍃🌺🍃•✾••┈💞
✅بازنشر: دارالافتاء مجازی اهل سنت
@Canale_pasokh
#میت
#غسال
🔸 سوال:
آیا کسی که شغلش شستن مرده میباشد امامت این شخص چه حکمی دارد
➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📝 پاسخ
🔹 از نظر شرعی امامت فرد مرده شور درست می باشد
🔸غسل میت عملی نیست که موجب اشکال در امامت گردد
بلکه برعکس، بهتر است که شخص متوفی توسط افراد نیک و متقی غسل داده شود.
🔸بنابراین اقتداء در نماز به شخص غسال از نظر شرعی مشکلی ندارد.
🔸البته فقهاء نوشتن این شغل اگر در جایی بعنوان شغل حقیر تلقی شود،
یا شغل کسی مرده شوری باشد و اخلاق خرابی هم داشته باشد در اینصورت، امامت اینطور فردی مکروه میباشد.
📚 دلایل و منابع
▫️"عنوان:میت کو غسل دینے والے کو امام مقرر کرنا کیسا ہے؟
جواب:(از حضرت مفتی اعظمؒ)اگر غسال اجرت لیتا ہواور بد اخلاقی کے اعمال اس سے صادر ہوتے ہوں تو اس کی امامت مکروہ ہوگی ،کیوں کہ ایسے شخص کو لوگ نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔"
کفایت المفتی
(کتاب الصلوۃ،89/3،ط:دارالاشاعت)
▫️میت کو غسل دینا ایسا عمل نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے امامت میں کراہت آئے؛ بلکہ میت کو غسل اہلِ تقویٰ حضرات کا دینا بہتر ہے؛اس لیے اس شخص کی اقتداء میں نماز بلاکراہت درست ہے۔ قال فی الشامی: یندب الغسل من غسل المیت، ویکرہ أن یغسلہ جنب أو حائض․․ والأولیٰ کونہ أقرب الناس الیہ، فان لم یحسن الغسل فأہل الأمانة والورع․ (شامی: ۳/۹۵باب صلاة الجنازةط: زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میت کو غسل دینا مسلمانوں کےذمہ نمازِ جنازہ کی طرح فرضِ کفایہ ہے ،لہذا جیسے نماز جنازہ پڑھنے والےکی امامت میں کوئی خرابی نہیں اسی طرح غسل دینے والے کی امامت میں بھی کوئی حرج نہیں ہے،البتہ میت کو غسل دینے والا شخص بداخلاقی کرتا ہو،یا اس کا م پر اجرت لیتا ہو،اور اس جگہ کے عرف میں میت کو غسل دینے والے کو حقیر سمجھا جاتا ہوتو وہا ں ایسے شخص کی امامت مکروہ ہوگی،اور جہاں ایسا عرف نہیں وہاں مکروہ نہیں ہوگا۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401100419
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
➖➖➖➖➖➖➖➖➖
🌸 گروه پاسخگویی سوالات شرعی اهلسنت
💞┈••✾•🍃🌺🍃•✾••┈💞
✅بازنشر: دارالافتاء مجازی اهل سنت
@Canale_pasokh
الجواب حامداً و مصلیاً
السلام علیکم و رحمهالله و برکاته
خواندن آیات قرآن مجید برای بانوان در دوران پریودی به نیت تلاوت، ناجایز است. اما خواندن سورهی حمد و آیاتی که دربرگیرندهی مضمون و معنای دعا هستند و نیز آیة الکرسی در دوران حیض و نفاس، در صورتیکه صرفاً به نیت دعا خوانده شوند، جایز است و ایرادی ندارد.
برای بانوان توصیه میشود در ایام عادت ماهیانه در اوقات نماز وضو گرفته و بر سجاده خود نشسته و به اندازهای که هر فرد خودش بهتر میداند که در آن تایم نماز وقتی را ادا مینماید اندازه همان فرصت و یا بیشتر را به اذکار و دعا اختصاص دهد تا به سبب نماز نخواندن در ایام عادت بالکل از ارتباط و تعلق با الله تعالی غافل نشده و نسبت به عبادت تنبل و کسل نگردد.
و ذکر و دعا در ایام عادت ماهیانه هیچ اشکالی شرعی ندارد.
🔰➖➖ منابع و مراجع➖➖🔰
ومنها حرمة قراءة القرآن لا تقرأ الحائض والنفساء والجنب شيئا من القرآن والآية وما دونها سواء في التحريم على الأصح إلا أن لا يقصد بما دون الآية القراءة مثل أن يقول الحمد لله يريد الشكر أو بسم الله عند الأكل أو غيره فإنه لا بأس به هكذا في الجوهرة النيرة ولا تحرم قراءة آية قصيرة تجري على اللسان عند الكلام كقوله تعالى ثم نظر ولم يولد هكذا في الخلاصة. {الفتاوی الهندیه، کتاب الطهارة، الباب السادس: فی البماء المختصة بالنساء 1/92- ط: دارالفکر}
در کتاب محمود الفتاوی آمده: قرائت قرآن به¬قصد دعا و نیایش و خواندن اوراد معتاده و معهود در مکان¬های وارده برای زنان قاعده، جایز است. ولی آیاتی¬که معنای دعا را ندارند بقصد دیگری نمی¬تواند بخواند. {محمودالفتاوی، کتاب الطهارة، باب الحیض والنفاس 1/59- ط: صدیقی}
در ندای اسلام شماره¬ی 4 آمده: س: آیا تلاوت قرآن مجید، انجام اذکار، اوراد و درود فرستادن در حالت جنابت و ایام قاعدگی، جایز است یا خیر؟ ج: خواندن قرآن به نیت تلاوت، ناجایز است، اما خواندن دعاهای قرآنی به نیت دعا و انجام اذکار و اوراد و خواندن درود، جایز است و اشکالی ندارد. {ندای اسلام، شماره 4، ص: 72}
عورت حیض کے ایام میں نمازوں کے اوقات میں کیا کرے؟
جواب
شریعتِ مطہرہ کی طرف سے حیض کے ایام میں نمازوں کے اوقات میں عورت کے ذمہ کسی قسم کی کوئی عبادت نہیں ہے، البتہ مسلمان کی شان یہ ہے کہ اس کا کوئی بھی وقت ذکر اللہ یا بامقصد کاموں سے خالی نہ ہو، لہٰذا حیض کے ایام میں عورت کے ذمہ چوں کہ نماز پڑھنا تو نہیں ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان اوقات کو فضول کاموں میں لگ کر ضائع کردیا جائے، بلکہ ان اوقات کو مفید دینی کتب کے مطالعہ اور اذکار و دعاؤں میں صرف کرنا چاہیے۔
فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے کہ حائضہ عورت کے لیے مستحب ہے کہ نماز کے وقت وضو کرکے جتنی دیر نماز پڑھنے میں لگتی ہے، اتنی دیر مصلیٰ بچھا کر بیٹھ کر ذکر و دعا کرتی رہے، تاکہ عام اوقات میں جو وقت عبادت میں لگتا تھا وہ ضائع بھی نہ ہو اور عبادت کی عادت بھی باقی رہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144010200649
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
▪️➖➖➖➖➖▫️
والله اعلم بالحق و بالصواب
کاتب: خالد زارعی عفااللهعنه
۱۷/ذوالقعده/۱۴۴۵ ه.
❌ کپی بدون لینک ممنوع و ناجائز ❌
لینک بزرگترین گروه پرسش و پاسخ اهل سنت
https://www.tgoop.com/Porseshopasokhe_ahnaf
لینک کانال:
@Canale_pasokh
السلام علیکم و رحمهالله و برکاته
خواندن آیات قرآن مجید برای بانوان در دوران پریودی به نیت تلاوت، ناجایز است. اما خواندن سورهی حمد و آیاتی که دربرگیرندهی مضمون و معنای دعا هستند و نیز آیة الکرسی در دوران حیض و نفاس، در صورتیکه صرفاً به نیت دعا خوانده شوند، جایز است و ایرادی ندارد.
برای بانوان توصیه میشود در ایام عادت ماهیانه در اوقات نماز وضو گرفته و بر سجاده خود نشسته و به اندازهای که هر فرد خودش بهتر میداند که در آن تایم نماز وقتی را ادا مینماید اندازه همان فرصت و یا بیشتر را به اذکار و دعا اختصاص دهد تا به سبب نماز نخواندن در ایام عادت بالکل از ارتباط و تعلق با الله تعالی غافل نشده و نسبت به عبادت تنبل و کسل نگردد.
و ذکر و دعا در ایام عادت ماهیانه هیچ اشکالی شرعی ندارد.
🔰➖➖ منابع و مراجع➖➖🔰
ومنها حرمة قراءة القرآن لا تقرأ الحائض والنفساء والجنب شيئا من القرآن والآية وما دونها سواء في التحريم على الأصح إلا أن لا يقصد بما دون الآية القراءة مثل أن يقول الحمد لله يريد الشكر أو بسم الله عند الأكل أو غيره فإنه لا بأس به هكذا في الجوهرة النيرة ولا تحرم قراءة آية قصيرة تجري على اللسان عند الكلام كقوله تعالى ثم نظر ولم يولد هكذا في الخلاصة. {الفتاوی الهندیه، کتاب الطهارة، الباب السادس: فی البماء المختصة بالنساء 1/92- ط: دارالفکر}
در کتاب محمود الفتاوی آمده: قرائت قرآن به¬قصد دعا و نیایش و خواندن اوراد معتاده و معهود در مکان¬های وارده برای زنان قاعده، جایز است. ولی آیاتی¬که معنای دعا را ندارند بقصد دیگری نمی¬تواند بخواند. {محمودالفتاوی، کتاب الطهارة، باب الحیض والنفاس 1/59- ط: صدیقی}
در ندای اسلام شماره¬ی 4 آمده: س: آیا تلاوت قرآن مجید، انجام اذکار، اوراد و درود فرستادن در حالت جنابت و ایام قاعدگی، جایز است یا خیر؟ ج: خواندن قرآن به نیت تلاوت، ناجایز است، اما خواندن دعاهای قرآنی به نیت دعا و انجام اذکار و اوراد و خواندن درود، جایز است و اشکالی ندارد. {ندای اسلام، شماره 4، ص: 72}
عورت حیض کے ایام میں نمازوں کے اوقات میں کیا کرے؟
جواب
شریعتِ مطہرہ کی طرف سے حیض کے ایام میں نمازوں کے اوقات میں عورت کے ذمہ کسی قسم کی کوئی عبادت نہیں ہے، البتہ مسلمان کی شان یہ ہے کہ اس کا کوئی بھی وقت ذکر اللہ یا بامقصد کاموں سے خالی نہ ہو، لہٰذا حیض کے ایام میں عورت کے ذمہ چوں کہ نماز پڑھنا تو نہیں ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان اوقات کو فضول کاموں میں لگ کر ضائع کردیا جائے، بلکہ ان اوقات کو مفید دینی کتب کے مطالعہ اور اذکار و دعاؤں میں صرف کرنا چاہیے۔
فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے کہ حائضہ عورت کے لیے مستحب ہے کہ نماز کے وقت وضو کرکے جتنی دیر نماز پڑھنے میں لگتی ہے، اتنی دیر مصلیٰ بچھا کر بیٹھ کر ذکر و دعا کرتی رہے، تاکہ عام اوقات میں جو وقت عبادت میں لگتا تھا وہ ضائع بھی نہ ہو اور عبادت کی عادت بھی باقی رہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144010200649
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
▪️➖➖➖➖➖▫️
والله اعلم بالحق و بالصواب
کاتب: خالد زارعی عفااللهعنه
۱۷/ذوالقعده/۱۴۴۵ ه.
❌ کپی بدون لینک ممنوع و ناجائز ❌
لینک بزرگترین گروه پرسش و پاسخ اهل سنت
https://www.tgoop.com/Porseshopasokhe_ahnaf
لینک کانال:
@Canale_pasokh
💞فضیلت صلوات درشب وروز جمعه💞
پیامبر ﷺ فرمودند:
💖در روز و شب جمعه بر من صلوات بفرستید، و هر کس بر من صلوات بفرستد، خداوند ۱۰ بار بر او صلوات میفرستد.» [رواه بيهقی/5994]💖
💞اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّد، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّد، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد💕
پیامبر ﷺ فرمودند:
💖در روز و شب جمعه بر من صلوات بفرستید، و هر کس بر من صلوات بفرستد، خداوند ۱۰ بار بر او صلوات میفرستد.» [رواه بيهقی/5994]💖
💞اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّد، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّد، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد💕
سورة الكهف
الشيخ عبد الودود حنيف
👈ســورة کهف صوتی🗣
🍂رسول الله فرمودند:
هرکس روز جمعه سوره کهف را تلاوت کند بین دوتا جمعه برایش نورانی میشود
#بفرست برای کسی که دوستش داری❤️
💞┈••✾•🍃🌺🍃•✾••┈💞
✅ دارالافتاء مجازی اهل سنت
@Canale_pasokh
🍂رسول الله فرمودند:
هرکس روز جمعه سوره کهف را تلاوت کند بین دوتا جمعه برایش نورانی میشود
#بفرست برای کسی که دوستش داری❤️
💞┈••✾•🍃🌺🍃•✾••┈💞
✅ دارالافتاء مجازی اهل سنت
@Canale_pasokh
حمایت از مسجدالاقصی وظیفه تمام مسلمانان
✍ علامه دکتر یوسف قرضاوی ( رح )
رئیس اسبق اتحادیه جهانی علمای مسلمان
ای مسلمانان ، هر یک از ما باید اندوه و دغدغه قدس و مسجد الاقصی را داشته باشد ، مسجدالاقصی به مانند تاج سر فلسطین است . هر فردی باید عهده دار مسئله فلسطین باشد و آن را مورد بررسی قرار بدهد و قضیه قدس فقط مربوط به علمای اسلام ، حکام و رهبران و یا فلسطینی ها نیست بلکه مربوط به تمام مسلمانان می شود و هر فردی از امت اسلام نسبت به موضوع فلسطین باید حساس باشد و اهمیت بدهد.هر فردی نسبت به مسولیتی که در قبال مسجد الاقصی دارد باید عمل کند و منتظر دیگران نباشد.
آیا برای قبله اول مسلمین و مسجد الاقصی چه کاری انجام داده ایم ؟
آیا با دوستان و برادران در این موضوع صحبت کرده ایم ؟
آیا با خانواده و فرزندان در این موضوع گفتگو کرده ایم در مورد آن خطری که یهود می خواهد بر علیه امت اسلام اجرا سازد.؟
اساسا جنگ بین ما و اسرائیل ، جنگ مرزبندی سیاسی نیست بلکه جنگ موجودیت است، موجودیت عرب و مسلمین در دنیا،
آنها نمی خواهند حکومت قوی عربی و یا اسلامی وجود داشته باشد.
آنها خانههایشان رابر روی ویرانههای ما بنا میکنند؛
آنها بر روی مُردگان ما زندگی میکنند؛
آنها بر عقب نشینی ما گسترش پیدا میکنند،اینها خطرناک اند.
مشکل ما اینست که بعضی از مردم فکر می کنند که خطر اسرائیل فقط براي فلسطینی ها است در صورتی که این صحبت خطا و اشتباه بزرگیست بلکه خطر اسرائیل متوجه تمام امت اسلام اعم از عرب و غیر عرب هست حتی خطر اسرائیل تمام دنیا را تهدید می کند زیرا که اسرائیل یک تهدید و خطر سیاسی ، نظامی،اقتصادی،اجتماعی،فرهنگی و دینی محسوب می شود.
لازم است که امت اسلام را به لحاظ فکری و فرهنگی نسبت به موضوع فلسطین آگاه کنیم و در این موضوع روشنگری و آگاهی کافی ایجاد کنیم نسبت به قضییه ای که تنها شامل فلسطینی ها نمی شود.
من بارها گفته ام و باز هم تکرار می کنم اگر فلسطینی ها دست از حمایت قدس و مسجدالاقصی بردارند بر تمام امت اسلام واجب است که از قبله اول خودشان دفاع و حمایت کنند ، ولی فلسطینی ها اینچنین نکردند و نزدیک به یک قرن برای حمایت از مسجد الاقصی با دشمنان مبارزه کردند و شهید شدند ، از زمان اشغال قدس توسط انگلیس در سال ۱۹۱۷ میلادی فلسطینی ها پیوسته در راه حمایت و دفاع از مسجدالاقصی جنگیدند و جهاد کردند.
بعد از اشغال قدس توسط انگلیس ، فرمانده انگلیسی گفته بود امروز جنگ های صلیبی تمام شد ، آن جنگهایی که بخاطر تسلط بر قدس آغاز شده بود اما بوسیله سلطان صلاح الدین ایوبی با شکست مواجه شده بود و همچنین فرمانده فرانسوی زمانی که در سر قبر صلاح الدین ایوبی در دمشق حاضر می شود با کینه و عداوت خطاب به صلاح الدین ایوبی می گوید ای صلاح الدین ما برگشتیم و می مانیم ، ببینید که چگونه ارتباط فکری بین سردمداران کفر وجود دارد ،
قلبهای شان شبیه هم است همچنانکه موضع گیری اینها مشابهت دارد ، اینها افراد ستمگر و ظالم هستند.
به همین خاطر بر تکتک افراد امت اسلامی لازم هست که عهده دار قضییه قدس باشند و نسبت به آن دغدغه داشته باشند و نسبت به آن روشنگری کنند و با دیگران صحبت کنند تا که موضوع فلسطین و قبله اول به یک موضوع اصلی در زندگی تبدیل شود چون این موضوع تنها مربوط به حاکمان ، علما ، اندیشمندان ، خبرنگاران و فلسطینی ها نمی شود بلکه قضیه مربوط به امت اسلام اعم از مردان و زنان می باشد.
لذا وظیفه تمام امت اسلام هست که با این خطر بزرگ مبارزه کنند و در مقابل این رژیم متحد شوند.
باید عموم مسلمانان از حاکمان درخواست قطع رابطه با اسرائیل داشته باشند و هیچ نوع رابطه ای با آن برقرار نکنند،باید درخواست قطع رابطه رسمی عربی و اسلامی
با اسرائیل داشته باشند و تا چه زمانی قرار است به تاخیر بيفتد.
می خواهیم همه در یک نبرد علیه اسرائیل آماده شوند ، تمام رهبران و ملت ها باهم و در کنار هم ، چون این یک نبرد دسته جمعیست ،
این نبرد و صف آرایی امت اسلام علیه یهود است و همه ما باید در یک صف در مقابل رژیم اشغالگر بایستیم و با این خطر بزرگ مبارزه کنیم همچنانکه خداوند در قرآن می فرماید: [ ان الله یحب اللذين یقاتلون في سبيله صفا کانهم بنیان مرصوص ]
خدا آن مؤمنان را كه در راه او در صف جهاد با كافران، مانند بنيان و سدّى آهنين همدست و پايدارند بسيار دوست مىدارد.
✍ترجمه و برگردان : سیدفاضل عبدالهی
منبع :
_ الاتحاد العالمي للعلماء المسلمين
_ الهيئة العالمية لانصار نبي الاسلام
_هيئة العلماء فلسطين
💞┈••✾•🍃🌸🍃•✾••┈💞
✅ دارالافتاء مجازی اهل سنت
@Canale_pasokh
✍ علامه دکتر یوسف قرضاوی ( رح )
رئیس اسبق اتحادیه جهانی علمای مسلمان
ای مسلمانان ، هر یک از ما باید اندوه و دغدغه قدس و مسجد الاقصی را داشته باشد ، مسجدالاقصی به مانند تاج سر فلسطین است . هر فردی باید عهده دار مسئله فلسطین باشد و آن را مورد بررسی قرار بدهد و قضیه قدس فقط مربوط به علمای اسلام ، حکام و رهبران و یا فلسطینی ها نیست بلکه مربوط به تمام مسلمانان می شود و هر فردی از امت اسلام نسبت به موضوع فلسطین باید حساس باشد و اهمیت بدهد.هر فردی نسبت به مسولیتی که در قبال مسجد الاقصی دارد باید عمل کند و منتظر دیگران نباشد.
آیا برای قبله اول مسلمین و مسجد الاقصی چه کاری انجام داده ایم ؟
آیا با دوستان و برادران در این موضوع صحبت کرده ایم ؟
آیا با خانواده و فرزندان در این موضوع گفتگو کرده ایم در مورد آن خطری که یهود می خواهد بر علیه امت اسلام اجرا سازد.؟
اساسا جنگ بین ما و اسرائیل ، جنگ مرزبندی سیاسی نیست بلکه جنگ موجودیت است، موجودیت عرب و مسلمین در دنیا،
آنها نمی خواهند حکومت قوی عربی و یا اسلامی وجود داشته باشد.
آنها خانههایشان رابر روی ویرانههای ما بنا میکنند؛
آنها بر روی مُردگان ما زندگی میکنند؛
آنها بر عقب نشینی ما گسترش پیدا میکنند،اینها خطرناک اند.
مشکل ما اینست که بعضی از مردم فکر می کنند که خطر اسرائیل فقط براي فلسطینی ها است در صورتی که این صحبت خطا و اشتباه بزرگیست بلکه خطر اسرائیل متوجه تمام امت اسلام اعم از عرب و غیر عرب هست حتی خطر اسرائیل تمام دنیا را تهدید می کند زیرا که اسرائیل یک تهدید و خطر سیاسی ، نظامی،اقتصادی،اجتماعی،فرهنگی و دینی محسوب می شود.
لازم است که امت اسلام را به لحاظ فکری و فرهنگی نسبت به موضوع فلسطین آگاه کنیم و در این موضوع روشنگری و آگاهی کافی ایجاد کنیم نسبت به قضییه ای که تنها شامل فلسطینی ها نمی شود.
من بارها گفته ام و باز هم تکرار می کنم اگر فلسطینی ها دست از حمایت قدس و مسجدالاقصی بردارند بر تمام امت اسلام واجب است که از قبله اول خودشان دفاع و حمایت کنند ، ولی فلسطینی ها اینچنین نکردند و نزدیک به یک قرن برای حمایت از مسجد الاقصی با دشمنان مبارزه کردند و شهید شدند ، از زمان اشغال قدس توسط انگلیس در سال ۱۹۱۷ میلادی فلسطینی ها پیوسته در راه حمایت و دفاع از مسجدالاقصی جنگیدند و جهاد کردند.
بعد از اشغال قدس توسط انگلیس ، فرمانده انگلیسی گفته بود امروز جنگ های صلیبی تمام شد ، آن جنگهایی که بخاطر تسلط بر قدس آغاز شده بود اما بوسیله سلطان صلاح الدین ایوبی با شکست مواجه شده بود و همچنین فرمانده فرانسوی زمانی که در سر قبر صلاح الدین ایوبی در دمشق حاضر می شود با کینه و عداوت خطاب به صلاح الدین ایوبی می گوید ای صلاح الدین ما برگشتیم و می مانیم ، ببینید که چگونه ارتباط فکری بین سردمداران کفر وجود دارد ،
قلبهای شان شبیه هم است همچنانکه موضع گیری اینها مشابهت دارد ، اینها افراد ستمگر و ظالم هستند.
به همین خاطر بر تکتک افراد امت اسلامی لازم هست که عهده دار قضییه قدس باشند و نسبت به آن دغدغه داشته باشند و نسبت به آن روشنگری کنند و با دیگران صحبت کنند تا که موضوع فلسطین و قبله اول به یک موضوع اصلی در زندگی تبدیل شود چون این موضوع تنها مربوط به حاکمان ، علما ، اندیشمندان ، خبرنگاران و فلسطینی ها نمی شود بلکه قضیه مربوط به امت اسلام اعم از مردان و زنان می باشد.
لذا وظیفه تمام امت اسلام هست که با این خطر بزرگ مبارزه کنند و در مقابل این رژیم متحد شوند.
باید عموم مسلمانان از حاکمان درخواست قطع رابطه با اسرائیل داشته باشند و هیچ نوع رابطه ای با آن برقرار نکنند،باید درخواست قطع رابطه رسمی عربی و اسلامی
با اسرائیل داشته باشند و تا چه زمانی قرار است به تاخیر بيفتد.
می خواهیم همه در یک نبرد علیه اسرائیل آماده شوند ، تمام رهبران و ملت ها باهم و در کنار هم ، چون این یک نبرد دسته جمعیست ،
این نبرد و صف آرایی امت اسلام علیه یهود است و همه ما باید در یک صف در مقابل رژیم اشغالگر بایستیم و با این خطر بزرگ مبارزه کنیم همچنانکه خداوند در قرآن می فرماید: [ ان الله یحب اللذين یقاتلون في سبيله صفا کانهم بنیان مرصوص ]
خدا آن مؤمنان را كه در راه او در صف جهاد با كافران، مانند بنيان و سدّى آهنين همدست و پايدارند بسيار دوست مىدارد.
✍ترجمه و برگردان : سیدفاضل عبدالهی
منبع :
_ الاتحاد العالمي للعلماء المسلمين
_ الهيئة العالمية لانصار نبي الاسلام
_هيئة العلماء فلسطين
💞┈••✾•🍃🌸🍃•✾••┈💞
✅ دارالافتاء مجازی اهل سنت
@Canale_pasokh
الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، وعلى آله وصحبه أجمعين.
در پاسخ به این سؤال که آیا غذا دادن به پرندگان اجر و ثواب دارد، و آیا پرندگان برای ما دعای خیر میکنند، میتوان گفت:
1. غذا دادن به پرندگان و حیوانات اجر و ثواب دارد:
در حدیث پیامبر اکرم (صلى الله عليه وآله وسلم) آمده است: «في كل كبد رطبة أجر» (متفق عليه)؛ یعنی در هر جاندار زنده و نیازمند، اجر و ثوابی وجود دارد. این حدیث نشان میدهد که غذا دادن و رفع نیاز حیوانات و پرندگان از اعمال نیکویی است که خداوند برای آن پاداش در نظر گرفته است.
همچنین در حدیث دیگری آمده است: «إن الله كتب الإحسان على كل شيء» (روایت مسلم)؛ یعنی خداوند احسان و نیکی را بر هر چیزی واجب کرده است. این شامل نیکی به حیوانات و پرندگان نیز میشود.
2. نمونههایی از احسان به حیوانات در سنت نبوی:
در داستان معروفی که پیامبر (صلى الله عليه وآله وسلم) نقل کردهاند، زنی که سگ تشنهای را آب داد، مورد مغفرت خداوند قرار گرفت و وارد بهشت شد. این نشان میدهد که حتی احسان به حیوانات هم میتواند انسان را به درجات بالای رحمت الهی برساند.
3. دعای خیر پرندگان برای انسان:
هرچند بهطور مستقیم در منابع حدیثی نیامده که پرندگان به زبان حال یا قال برای انسان دعای خیر میکنند، اما برخی علما بر این باورند که موجودات زنده، به خصوص آنهایی که انسان به آنها احسان میکند، به نوعی در برابر نیکی انسان شکرگزاری میکنند. این ممکن است در قالب برکت در زندگی یا دعای خیر غیرمستقیم باشد، زیرا آنها از رحمت و لطف خداوند که به واسطه انسان به آنها میرسد، بهرهمند میشوند.
4. نتیجهگیری:
غذا دادن به پرندگان و حیوانات نه تنها اجر و ثواب دارد، بلکه از نشانههای ایمان و نیکوکاری است. این عمل میتواند یکی از اسباب ورود به بهشت باشد، به شرط آنکه با نیت خالص و برای رضای خداوند انجام شود. در عین حال، امیدوار بودن به رحمت خداوند و استمرار در این عمل نیکو، نشاندهنده حسن ظن انسان به فضل الهی است.
والله تعالی أعلم بالحق و الصواب
✍کاتب: خالد زارعی عفا الله عنه
۱۰ /رجب المرجب/۱۴۴۶ ه.ق
🔻➖➖➖➖➖➖🔻
کپی فقط به همراه لینک مجاز و معتبر است.
لینک گروه و کانال بزرگترین گروه پرسش و پاسخ فقهی اهل سنت.
@Porseshopasokhe_ahnaf
در پاسخ به این سؤال که آیا غذا دادن به پرندگان اجر و ثواب دارد، و آیا پرندگان برای ما دعای خیر میکنند، میتوان گفت:
1. غذا دادن به پرندگان و حیوانات اجر و ثواب دارد:
در حدیث پیامبر اکرم (صلى الله عليه وآله وسلم) آمده است: «في كل كبد رطبة أجر» (متفق عليه)؛ یعنی در هر جاندار زنده و نیازمند، اجر و ثوابی وجود دارد. این حدیث نشان میدهد که غذا دادن و رفع نیاز حیوانات و پرندگان از اعمال نیکویی است که خداوند برای آن پاداش در نظر گرفته است.
همچنین در حدیث دیگری آمده است: «إن الله كتب الإحسان على كل شيء» (روایت مسلم)؛ یعنی خداوند احسان و نیکی را بر هر چیزی واجب کرده است. این شامل نیکی به حیوانات و پرندگان نیز میشود.
2. نمونههایی از احسان به حیوانات در سنت نبوی:
در داستان معروفی که پیامبر (صلى الله عليه وآله وسلم) نقل کردهاند، زنی که سگ تشنهای را آب داد، مورد مغفرت خداوند قرار گرفت و وارد بهشت شد. این نشان میدهد که حتی احسان به حیوانات هم میتواند انسان را به درجات بالای رحمت الهی برساند.
3. دعای خیر پرندگان برای انسان:
هرچند بهطور مستقیم در منابع حدیثی نیامده که پرندگان به زبان حال یا قال برای انسان دعای خیر میکنند، اما برخی علما بر این باورند که موجودات زنده، به خصوص آنهایی که انسان به آنها احسان میکند، به نوعی در برابر نیکی انسان شکرگزاری میکنند. این ممکن است در قالب برکت در زندگی یا دعای خیر غیرمستقیم باشد، زیرا آنها از رحمت و لطف خداوند که به واسطه انسان به آنها میرسد، بهرهمند میشوند.
4. نتیجهگیری:
غذا دادن به پرندگان و حیوانات نه تنها اجر و ثواب دارد، بلکه از نشانههای ایمان و نیکوکاری است. این عمل میتواند یکی از اسباب ورود به بهشت باشد، به شرط آنکه با نیت خالص و برای رضای خداوند انجام شود. در عین حال، امیدوار بودن به رحمت خداوند و استمرار در این عمل نیکو، نشاندهنده حسن ظن انسان به فضل الهی است.
والله تعالی أعلم بالحق و الصواب
✍کاتب: خالد زارعی عفا الله عنه
۱۰ /رجب المرجب/۱۴۴۶ ه.ق
🔻➖➖➖➖➖➖🔻
کپی فقط به همراه لینک مجاز و معتبر است.
لینک گروه و کانال بزرگترین گروه پرسش و پاسخ فقهی اهل سنت.
@Porseshopasokhe_ahnaf
#نهیمنکر #امرمعروف
📲 ✾•┈┈••✦❀ سوال ❀✦••┈┈•✾
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
علماء کرام در مورد این مسئله در شریعت، بر اساس فقه حنفی چه میفرمایند :
ایا امر به معروف و نهی از منکر با خشونت و آسیب فیزیکی و روحی در اسلام جایز است؟؟
@Porseshopasokhe_ahnaf.
💻 ✾•┈┈••✦❀ پاسخ ❀✦••┈┈•✾
الجواب حامداً و مصلیاً
وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ ٱللَّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ
در فقه حنفی و شریعت اسلامی، امر به معروف و نهی از منکر یکی از واجبات است، اما این واجب دارای اصول و شرایط خاصی است که باید رعایت شود.
اصول و شرایط امر به معروف و نهی از منکر:
1. علم و شناخت: شخصی که امر به معروف و نهی از منکر میکند، باید نسبت به آنچه امر یا نهی میکند علم کافی داشته باشد و بداند که آیا این عمل واقعاً واجب یا حرام است.
2. ملایمت و نرمی: ابتدا باید با نرمخویی و محبت انجام شود. پیامبر اکرم (صلیالله علیه و آله و سلم) میفرمایند:
> «إِنَّ الرِّفْقَ لَا يَكُونُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ، وَلَا يُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ»
(صحیح مسلم)
یعنی: "ملایمت و نرمی در هر چیزی که باشد، آن را زیبا میسازد و اگر برداشته شود، آن را زشت میکند."
3. عدم آسیب: اگر امر به معروف و نهی از منکر موجب آسیب جسمی، روحی یا فتنه شود، جایز نیست. هدف از این واجب اصلاح است، نه ایجاد فساد یا ضرر. امام کاسانی در بدائع الصنائع میفرماید:
> «إن كان في الإنكار وقوع فتنة أو ضرر عظيم، فلا يجوز الإنكار باليد بل يكون باللسان فقط»
(بدائع الصنائع، ج۴، ص ۲۰۷)
یعنی: "اگر در نهی از منکر با دست، فتنه یا ضرر بزرگی واقع شود، جایز نیست، بلکه باید فقط با زبان انجام شود."
4. تناسب عمل: میزان نهی از منکر باید متناسب با شرایط باشد و از حد تجاوز نکند.
خشونت و آسیب فیزیکی یا روحی
در فقه حنفی، استفاده از خشونت و آسیب رساندن برای امر به معروف و نهی از منکر جایز نیست، مگر در مواردی که حاکم شرعی و نظام قضایی اسلامی آن را اجرا کند. این کار از اختیارات فرد عادی خارج است.
خلاصه
امر به معروف و نهی از منکر باید با نرمی، محبت و بدون آسیب انجام شود. اگر این کار موجب فتنه یا ضرر گردد، ترک آن بهتر است. استفاده از خشونت یا آسیب فیزیکی و روحی از سوی افراد عادی در اسلام ممنوع است.
📖✾•┈┈••✦❀ منابع ❀✦••┈┈•✾
به پیوست میباشد.
والله تعالی أعلم بالحق و الصواب
✍کاتب: خالد زارعی عفا الله عنه
۱۰ /جمادی الثانی/۱۴۴۶ ه.ق
🔻➖➖➖➖➖➖🔻
کپی فقط به همراه لینک مجاز و معتبر است.
لینک گروه و کانال بزرگترین گروه پرسش و پاسخ فقهی اهل سنت.
@Porseshopasokhe_ahnaf
💞┈••✾•🍃🌸🍃•✾••┈💞
✅ دارالافتاء مجازی اهل سنت
@Canale_pasokh
📲 ✾•┈┈••✦❀ سوال ❀✦••┈┈•✾
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
علماء کرام در مورد این مسئله در شریعت، بر اساس فقه حنفی چه میفرمایند :
ایا امر به معروف و نهی از منکر با خشونت و آسیب فیزیکی و روحی در اسلام جایز است؟؟
@Porseshopasokhe_ahnaf.
💻 ✾•┈┈••✦❀ پاسخ ❀✦••┈┈•✾
الجواب حامداً و مصلیاً
وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ ٱللَّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ
در فقه حنفی و شریعت اسلامی، امر به معروف و نهی از منکر یکی از واجبات است، اما این واجب دارای اصول و شرایط خاصی است که باید رعایت شود.
اصول و شرایط امر به معروف و نهی از منکر:
1. علم و شناخت: شخصی که امر به معروف و نهی از منکر میکند، باید نسبت به آنچه امر یا نهی میکند علم کافی داشته باشد و بداند که آیا این عمل واقعاً واجب یا حرام است.
2. ملایمت و نرمی: ابتدا باید با نرمخویی و محبت انجام شود. پیامبر اکرم (صلیالله علیه و آله و سلم) میفرمایند:
> «إِنَّ الرِّفْقَ لَا يَكُونُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ، وَلَا يُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ»
(صحیح مسلم)
یعنی: "ملایمت و نرمی در هر چیزی که باشد، آن را زیبا میسازد و اگر برداشته شود، آن را زشت میکند."
3. عدم آسیب: اگر امر به معروف و نهی از منکر موجب آسیب جسمی، روحی یا فتنه شود، جایز نیست. هدف از این واجب اصلاح است، نه ایجاد فساد یا ضرر. امام کاسانی در بدائع الصنائع میفرماید:
> «إن كان في الإنكار وقوع فتنة أو ضرر عظيم، فلا يجوز الإنكار باليد بل يكون باللسان فقط»
(بدائع الصنائع، ج۴، ص ۲۰۷)
یعنی: "اگر در نهی از منکر با دست، فتنه یا ضرر بزرگی واقع شود، جایز نیست، بلکه باید فقط با زبان انجام شود."
4. تناسب عمل: میزان نهی از منکر باید متناسب با شرایط باشد و از حد تجاوز نکند.
خشونت و آسیب فیزیکی یا روحی
در فقه حنفی، استفاده از خشونت و آسیب رساندن برای امر به معروف و نهی از منکر جایز نیست، مگر در مواردی که حاکم شرعی و نظام قضایی اسلامی آن را اجرا کند. این کار از اختیارات فرد عادی خارج است.
خلاصه
امر به معروف و نهی از منکر باید با نرمی، محبت و بدون آسیب انجام شود. اگر این کار موجب فتنه یا ضرر گردد، ترک آن بهتر است. استفاده از خشونت یا آسیب فیزیکی و روحی از سوی افراد عادی در اسلام ممنوع است.
📖✾•┈┈••✦❀ منابع ❀✦••┈┈•✾
به پیوست میباشد.
والله تعالی أعلم بالحق و الصواب
✍کاتب: خالد زارعی عفا الله عنه
۱۰ /جمادی الثانی/۱۴۴۶ ه.ق
🔻➖➖➖➖➖➖🔻
کپی فقط به همراه لینک مجاز و معتبر است.
لینک گروه و کانال بزرگترین گروه پرسش و پاسخ فقهی اهل سنت.
@Porseshopasokhe_ahnaf
💞┈••✾•🍃🌸🍃•✾••┈💞
✅ دارالافتاء مجازی اهل سنت
@Canale_pasokh